شرم تم کومگر نہیں آتی

سیاسی لیڈر صرف حکمران ہی نہیں بنتے بلکہ دنیا بھر میں وہ قوموں کی تربیت کا سب سے بڑا سبب بھی ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں طوفان بدتمیزی برپا کرنے والوں کو سیاسی قائدین زیادہ ترقی و تقویت دیتے ہیں، ہماری سیاست اور معاشرت کی اخلاقی پستی میں جانے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ سیاست میں عدم برداشت کا رویہ اور پر تشدد واقعات کا بار بار رپورٹ ہونا کوئی دو چار دنوں، ہفتوں یا مہینوں کی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کا آغاز تو بنیادی طور پر 80 کی دہائی سے ہوا جب بائیں اور دائیں بازو کے سیاستدان آمنے سامنے تھے اورسٹیج پر الزامات کی بوچھاڑ کے ساتھ ساتھ غیر اخلاقی نعرے بازی بھی سیاستدانوں کا خاصہ ہوتی تھی۔ دو دہائیوں بعد2005 میں ہونے والے چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد سیاسی روا داری کا ایک نیا دور شروع ہوا  تو باہمی احترام کو ترویج ملنے لگی جس کو بعض حلقوں نے شدید ناپسند کیا پھر چند سال بعد ہی 2011 میں دوبارہ سیاسی مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے کا سلسلہ شروع ہوا اب کی بار مذہبی لبادہ اوڑھے  حقیقی سیکولر اپروچ کے حامل بانی پی ٹی آئی نے یہ بیڑا اٹھایا اور سیاست میں باہمی احترام کاایسا بیڑا غرق کیا کہ ایک پوری نسل کو نفرت اور نفاق کی بھینٹ چڑھنا پڑگیا، عدم برداشت کا رویہ اختیار کرنے اور پھر اسکو ہمیشہ کے لیے اپنانے کےپیچھے سیاسی جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف نےبڑی محنت کی ہے ایک دہائی سے پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوسکی. سیاسی مخالف ہو یا ادارے انکے خلاف بدترین بدکلامی اور مہم جوئی کا سلسلہ جاری رکھاگیا، 2021 تک عسکری قیادت کے قصیدے پڑھے جاتے رہے مگر جونہی پی ٹی آئی اور ہمنوا سیاسی طور پر ناکام ہوئے اور پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی اور بانی پی ٹی آئی کو گھر کیا جانا پڑا  تواس کے بعد کسی کو جانور تو کسی کوڈرٹی ہیری جیسے القابات سے ناصرف پکارا جاتا رہا بلکہ ایک منظم انداز میں مہم سوشل میڈیا پر چلائی جاتی رہی تب سے آج تک اس سوچ کے شر سے ناتو شہداء محفوظ رہے اور ناہی کوئی سیاسی مخالف محفوظ ہے ،رہی سہی کسر گنڈا پور اور سابق وزیر اعلی گلگت بلتستان  خالد رشید نے پوری کردی۔

پی ٹی آئی کے جذباتی اور عقل سے عاری رہنماؤں کی تقاریر سنیں تو لگتا ہے سب کچھ رات کے اندھیرے میں فتح کرلیا گیا ہے وہ  تمام اہداف جو پی ٹی آئی نے سیٹ کر رکھے ہیں وہ حاصل کرلیے گیے لیکن دن کی روشنی میں ساتھ کھڑے چند سنجیدہ رہنما بھی معافیاں مانگتے دکھائی دیتے ہیں وزیر اعلیٰ کے پی کے گنڈا پور اور سابق وزیر اعلی گلگت بلتستان کی حالیہ تقریروں نےبنیادی طور پر پی ٹی آئی کے لیے سیاسی محاذ پر مزید مشکلات کھڑی کردی ہیں، بجائے اسکے کہ اسلام آباد میں جلسے کے بعد دیگر شہروں میں جلسوں کے لیے پارٹی متحرک کرتے گنڈا پور نے خود کش سیاسی حملہ کرکے اپنے ہی رہنماؤں کیلئے مشکلات کانیا گڑھا کھود دیاجسکو بھرنے کےلیے پی ٹی آئی کے سنجیدہ سیاسی رہنماؤں کو امیج بلڈنگ کے لیے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، 

وزیر اعلیٰ کے پی کے گنڈاپور  پی ٹی آئی کے لیے لڈو کے وہ  99 والے سانپ ثابت ہوئے ہیں جسکے ڈنک کے بعد دوبارہ ایک پر گرنا پڑتا ہے۔

گنڈا پور جیسے سیاسی رہنما کو بانی پی ٹی آئی کی مکمل حمایت حاصل ہے کیونکہ بانی پی ٹی آئی کے سامنےجب صحافیوں نے احتجاج کیاتو بانی پی ٹی آئی نے بڑے آرام سے کہا کہ میں تو جیل میں مجھے کیا پتہ کس نے کیا کہاہے جبکہ دوسری جانب علی محمد خان سارا دن کہتے رہے کہ بانی پی ٹی آئی اسلام آباد جلسے سے بہت خوش ہیںاس کا مطلب ہے جلسے میں تمام خطابات بانی پی ٹی آئی کی خواہش پر ہوئے ہیں، بانی پی ٹی آئی سیاسی کھلاڑی کے ساتھ ساتھ باقاعدہ ایک شاطرسیاسی رہنما بھی بن چکے ہیں. اس بات پر اب کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ جو کچھ بھی پی ٹی آئی کے لوگ کرتے سب کو بانی پی ٹی آئی کی آشیر باد حاصل ہوتی ہے۔

جتنی گھٹیا اور بازاری زبان گنڈا پور نے صحافیوں کے حوالے سے استعمال کی ہے بالخصوص خواتین صحافیوں کے لیےشرمناک زبان استعمال کی گئی. بانی پی ٹی آئی کو اسکی کم از کم مزمت ضرور کرنی چاہیے تھی، گنڈا پور وہی ہے جو نومبر 2016 کے لاک ڈاؤن کی کال پر بنی گالا قافلے کے ساتھ تھا لیکن بنگش روڑ پر چند پولیس اہلکاروں کے سامنے ایسا بے بس ہواکہ مختلف اقسام کی شراب کی بوتلیں، تلور، مرغابیاں، ممنوعہ اسلحہ اور لینڈ کروزر وی ایٹ گاڑیاں چھوڑ کر ایسے بھاگا جیسے چور پولیس کو دیکھ کر بھاگتاہے،گنڈا پور اور اس اپروچ تمام سیاسی رہنما در حقیقت سیاسی جماعتوں کیلئے آستین کے سانپ ثابت ہوتے ہیں بہر حال پی ٹی آئی کو گنڈا پور اور اس جیسی سوچ کے لوگوں سے دور رکھ کر ہی پی ٹی آئی سیاسی محاذ پر نئے راستوں کی جانب گامزن ہوسکتی ہے۔

No comments

Powered by Blogger.