قومی اسمبلی توڑنے سے متعلق پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں اختلافات سامنے آگئے

قومی اسمبلی توڑنے سے متعلق پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں اختلافات سامنے آگئے۔اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے قبل از وقت اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز کی مخالفت کر دی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے پیپلز پارٹی چاہتی ہے اسمبلی مدت پوری کرنے کے بعد مقررہ تاریخ کو ہی تحلیل کی جائے۔

12 اگست سے پہلے اسمبلی توڑنے سے مہم کے لیے 30 اضافی دن ملنے کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور قبل از وقت تحلیل جمہوریت پسندوں کے لیے منفی پیغام ہوگا۔رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی اسمبلی تحلیل پر اتحادیوں کو منانے کے لیے کوشش کرے گی تاہم پیپلز پارٹی اسمبلی کی قبل از وقت تحلیل کی تجویز سے تاحال متفق نہیں ۔جب کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسمبلیاں اپنے مقررہ وقت سے ایک دو دن پہلے تحلیل ہو جائیں گی، ہمیں ایک ڈیڑھ ماہ بھی مل جائے تو نواز شریف انتخابی مہم چلائیں گے۔

دوسری جانب نگراں وزیراعظم کیلیے پی ڈی ایم قائدین میں مشاورت جاری ہے اور ابتدائی طور پر اس منصب کیلیے مختلف ناموں پر غور کیا جا رہا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق موجودہ اسمبلی کی آئینی مدت مکمل ہونے پر ذمے داری نگراں حکومت کو سونپی جائے گی، اس کے لیے بتدائی طور پر نگراں وزیراعظم کیلیے ناموں پرغور کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ حکومتی جماعتوں کے رہنماؤں کے مابین مشاورت میں نگراں وزیراعظم کے کچھ نام رکھے گئے ہیں اگر اس معاملے پر پیش رفت ہوتی ہے اور کسی پر اتفاق کیا جاتا ہے تو پھر یہ نام منظر عام پر لائے جائیں گے۔

موجودہ قومی اسمبلی آئندہ ماہ میں اپنی 5 سالہ آئینی مدت مکمل کر رہی ہے جس کے بعد نگراں وزیراعظم کا تقرر اور 60 دن میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ حکومتی اتحادی جماعتوں میں الیکشن کے حوالے سے اختلاف رائے سامنے آیا تھا۔ پیپلز پارٹی بروقت الیکشن جب کہ مولانا فضل الرحمان موجودہ اسمبلیوں میں ایک سال کی توسیع چاہتے تھے۔

No comments

Powered by Blogger.